حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ
آپ کا اِسم شریف ’’عبدالقادر‘‘ کنیت ’’ابو محمد‘‘ اور القابات محی الدین، محبوبِ سبحانی، غوث الثقلین اور غوثِ اعظم وغیرہ ہیں۔ شیخ المحدثین حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اپنی مشہور و معروف کتاب ’’اخبار الاخیار‘‘ شریف میں آپ کا ذکر اِن القابات سے فرمایا ہے۔ ’’قطب الاقطاب، فرد الاحباب، الغوث الاعظم، شیخ شیوخ العالم، غوث الثقلین، امام الطائفتین، شیخ الطالبین، شیخ الاسلام، محی الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی الحسینی الجیلانی ۔
حضرت مولانا عبدالرحمان نورالدین جامی نے اپنی کتاب ’’نفخات الانس من حضرات القدس‘‘ میں لکھا ہے:
حضرت سیّدنا عبد القادر جیلا نی ؒ ثابت النسب سیّد ہیں۔ جامع حسب ولقب ہیں۔ والد بزرگوار کی نسبت سے حسنی علوی اور والدہ محترمہ کی نسبت سے جو سیّد عبداﷲ صومعی زاہدکی بیٹی ہیں ،حسینی سیّد ہیں۔ آپ کے والد گرامی کا اِسم گرامی حضرت سیّدابو صالح موسیٰ جنگی دوستؒ ہے۔ حضرت غوث اعظمؒ حضرت عبد اﷲ صومعی زاہدؒ کے نواسے ہیں۔ غوث اعظم کی والدہ محترمہ کا نام اُم الخیراُمتہ الجبارحضرت فاطمہ ؒ ہے‘ آپ بڑی پاک طینت اور صالحہ خاتون تھیں۔ آپ نجیب الطرفین اور شریف الجانبین ہیں۔ آپ کے اِس سلسلہ عالیہ کی اِبتداء متواتر صحیح ثابت اور ایسی روشن ہے جیسا آفتاب عالم تاب ہوتا ہے۔ محققین اُمّت کا اِسی پر اتفاق ہے۔ آپ کی کنیت ابو محمدؒ ہے ۔
ولادت:
بحیرہ خزر کے جنوبی ساحل سے ملحق گیلان کا چھوٹاسا مگر زرخیز صوبہ ہے‘اُس کے ایک قصبہ میںحضرت شیخ سیّدنا عبدالقادر ؒ ۰۷۴ھ بمطابق ۲۹۰۱ئ میں یکم رمضان المبارک میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کی والدہ کی عمر ساٹھ برس تھی۔ آپ جب پیدا ہوئے تو رمضان شریف میں دن بھر دُودھ نہ پیتے تھے۔ یہ بات مشہور ہوگئی کہ سیّدوں کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں دن کو دُودھ نہیں پیتا۔
آپ بچپن میں شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ آپ کے نانا حضرت سیّد عبداﷲ صومعی ؒ زندہ تھے۔ اُنہوں نے آپ کو اپنے کنارِ عاطفت میں لے لیا۔ آپ بچوں کے ساتھ نہیں کھیلا کرتے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا قصد کرتا تو آواز آتی۔ اے مبارک ہماری طرف آ۔ میں آواز سن کر ڈرتا اور دوڑ کر سیدھا اپنی والدہ کی گود میں آجاتا ۔آپ کے آغازِ تعلیم کا تو صحیح طور پر معلوم نہیں مگر اتنا ضرور پتا چلتا ہے کہ آپ دس برس کی عمر میں اپنے شہر کے مکتب میں پڑھنے جایا کرتے تھے۔ حضرت ابو عبداﷲ محمد بن قائد وانی کا بیان ہے کہ میں حضرت شیح سیّد عبدالقادرؒ کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے اَمر کی بنیاد کس چیز پر رکھی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’سچ‘‘ پراور فرمایا میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا نہ بچپنے میں نہ جوانی میں۔
حضرت شیخ سیّدنا عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ بچپن میں ایک دفعہ مجھے جنگل میں جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے کھڑا ہو کر عام کسانوں کی طرح ہل چلانے لگا‘ میری حیرانگی کی اِنتہا نہ رہی جب اُس بیل نے مجھ سے کلام کیاکہ تم کاشتکاری کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں اِس کا حکم بھی نہیں دیا۔ فرماتے ہیں ‘میں خوف کی حالت میں گھر آیا اور گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو میں نے حاجیوں کو میدانِ عرفات میں دیکھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی آنکھوں کے آگے سے تمام حجابات ہٹا دئیے۔ فرماتے ہیں‘ میں اپنی والدہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے اِجازت دیجئے تاکہ میں بغداد شریف جا کر علماء کرام سے علم‘ مشائخ طریقت سے طریقت کا فیض حاصل کروں۔ والدہ محترمہ کو میںنے دونوں واقعات کے بارے میں عرض کیا فرماتے ہیں اُس وقت میری عمر ۸۱ سال تھی۔
ایک ماں کے لئے ایسے ہونہار‘ اِطاعت شعار اور پیدائشی ولی بیٹے کو اپنے سے جدائی کی اجازت دینا کوئی آسان کام نہ تھا۔ مگر والدہ نے اپنے بیٹے کے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے بغداد شریف جانے کی اِجازت مرحمت فرمادی اور ساتھ ہی نصیحت فرمائی کہ بیٹا ہمیشہ سچ بولنا اور الوداع فرماتے ہوئے فرمایا۔ ’’میں تمہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حوالے کرتی ہوں شاید میں تمہیں زندگی میں نہ دیکھ سکوں‘‘۔
مجاہدہ و ریاضت:
سرکارغوث اعظم ؒ نے مکمل طور پر علوم ظاہری حاصل کرنے کے بعد علوم باطنی کے حصول کی ابتداء کی اور مجاہدہ و ریاضت کی انتہائی مشکل اور پر خار راہوں میں قدم رکھا۔ چنانچہ آپ شہر چھوڑ کر عراق کی ویران وادیوں میں یکتا و یگانہ زندگی بسر کرنے لگے تاکہ کامل یکسوئی ملے جیسے ہی آپ نے اپنی مجاہدانہ زندگی کا آغاز کیا فضلِ اِلٰہی اِبتداء ہی سے آپ کے شامل حال رہا۔
شیخ ابوالعباس احمد یحییٰ بغداد المعروف ابن الدیبقی ؒ کا بیان ہے کہ میں نے ۸۵۵ھ میں حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ کو سنا کہ کرسی پر بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے میں پچیس سال عراق کے جنگلوں اور ویرانوں میں اکیلا پھرتا رہا۔ چالیس سال عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتا رہا اور پندرہ سال نماز عشاء پڑھ کر قرآن پاک شروع کردیتا اور ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر اور نیند کے خوف سے میخ دیوار ہاتھ سے پکڑ کر صبح تک ختم کردیا کرتا۔ ایک رات میں ایک سیڑھی پر چڑھ رہا تھا میرے نفس نے کہا کاش تو ایک گھڑی سو جائے اور پھر اُٹھ کھڑا ہو جونہی یہ خطرہ میرے دل میں آیا میں ٹھہر گیا اور ایک پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور قرآنِ مجید شروع کر دیا اور اِسی حالت میں مکمل قرآن پاک پڑھ لیا۔
بیعت:
حضورسیّدنا غوث اعظم ؒ نے جب تمام علوم پر دسترس حاصل کر لی ،عبادت وریاضت اور مجاہدات کی مشقتوں اور صحر ا نوردی کی خلوتوں میں بہت عرصہ گزر گیا اور محنت شاقہ کے بعد پورا تزکیہ نفس ہوا تو آپ حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومی ؒؒکی خدمت میں حاضرہو ئے اور بیعت کرکے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے جس سے آپ کوکمال عروج ملا۔ حتیٰ کہ ایک دن اپنے مرشد کامل قاضی ابو سعید مبارک مخزومی ؒ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور کسی کام کے لئے اُٹھ کر باہر آئے تو آپ کے شیخ طریقت نے فرمایا اس نوجوان کا قدم ایک دن تمام اولیا ء اﷲ کی گردنوں پر ہو گا اور اِس کے زمانے کے تمام اولیا ء اِس کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیں گے اور انکساری کریں گے۔
خرقۂ خلافت:
حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومیؒجب سیّدنا غوث اعظم ؒ سے بیعت لے چکے تو آپ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا جس سے آپ کو اتنا فیض ملا کہ خود فرماتے ہیںمیرے شیخ طریقت جو لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے وہ ہر لقمہ میرے سینہ ِکو نور معرفت سے بھر دیتا تھا۔ پھر حضرت شیخ قاضی ابو سعید مبارک مخزومی ؒ نے آپ کوخرقۂ خلافت پہنایا اور فرمایا:اے عبد القادریہ خرقہ حضور سرور کونین ؐ نے امیر المؤمنین حضرت علی ؓ کو عطا فرمایا اُ ن سے حضرت خواجہ حسن بصریؒکو ملا، اور پھر اُن سے دست بدست مجھ تک پہنچا اور اب میں تمہیں دے رہا ہوں۔ یہ خرقہ پہننے کے بعد حضور سیّدنا غوث اعظم ؒ پر برکات و تجلیات اور بے شمارا نوارِ ا لہٰیہ کا نزول ہوا۔ (قلائد الجواھر)
وعظ تدریس وافتائ:
جب حضرت سیّدنا غوث اعظمؒ علوم ظاہری وباطنی سے فارغ ہوئے تو وعظ وتدریس پر مامور ہوئے۔ آپ نے ۳۵۵ھ میں وعظ کی ابتداء یوں فرمائی، فرماتے ہیں کہ میں نے سہ شنبہ یعنی بروز منگل ۲۱ شوال المکرم ۱۲۵ھ کو ظہر سے پہلے رسول اللہ ؐکا دیدار کیا‘ حضور اَقدس ؐنے فرمایا: اے میرے بیٹے وعظ کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا‘ یارسول اللہ ؐ میں عجمی (غیر فصیح)ہوں۔ بغداد شریف میں فصحائے عرب کے سامنے کیسے کلام کروں ؟حضور نبی کریم ؒ نے سات بار لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا اورمجھ سے فرمایا کہ لوگوں کو وعظ کر اور حکمت وموعظ حسنہ سے اپنے رب کے راستے کی طرف بلا۔ پس میں ظہر کی نماز پڑھ کر بیٹھ گیا‘بہت سے لوگ میرے پاس آئے‘ میں گھبرا گیا پھر میں نے حضرت علی ؓ کو دیکھا‘ اُنہوں نے مجھے فرمایا: اے میرے بیٹے تو وعظ کیوں نہیں کرتا؟ میں نے عرض کیا ‘حضور میں گھبرا گیا ہوں‘ آپ نے فرمایا: اپنامنہ کھول‘ میں نے منہ کھولا تو آپ نے چھ باراپنا لعاب شریف میرے منہ میں ڈالا‘میں نے عرض کیا‘ پورے سات مرتبہ کیوں نہیں ڈال رہے‘ آپ نے فرمایا: کہ رسول اللہ ؐ کے ساتھ اَدب کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔
تھوڑے عرصہ میں آپ کے وعظ میں لوگ بکثرت شامل ہونے لگے ‘باب الحلیہ کے مصلے میں گنجائش نہ رہی تو آپ کی کرسی شہر کے باہر عید گا ہ میںلے گئے‘ وہاں بھی لوگ جوق درجوق شوق سے گھوڑوں‘خچروں‘گدھوں اور اونٹوںپرآیاکرتے تھے ‘ حاضرین مجلس کی تعداد تقریباً ستر ہزار ہوا کرتی۔
فتاویٰ نویسی:
حضور سیّدنا غوث اعظمؒ کے صاحبزادے سیّد عبد الوہاب ؒ فرماتے ہیں کہ آپ نے ۸۲۵ھ سے ۱۶۵ تک(تینتیس سال) درس وتدریس اور فتاویٰ نویسی کے فرائض سرانجام دئیے۔ آپ کی مجلس مبارکہ میں باوجودیکہ ہجوم بہت زیادہ ہوتا تھا لیکن آپ کی آواز مبارک جتنی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی اتنی ہی دور والوں کو سنائی دیتی تھی اور آپ اہل مجلس کے خطرات قلبی کے موافق کلام فرماتے تھے۔
قول وفعل میں مطابقت:
حضرت احمد بن صالح بن شافعیؒ فرماتے ہیں ‘ میں مدرسہ نظامیہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی مجلس میں بیٹھا تھا۔ اِس مجلس میں وقت کے اکثر علماء و فقہا موجود تھے اور آپ کاموضوع گفتگو قضا و قدر تھا۔ اتنے میں ایک بہت بڑا سانپ چھت سے آپ کی گود میں آ گرااور پھر سینہ سے نکل کر گلے کے گرد لپٹ گیا۔ اِس واقعہ کے باوجود نہ تو آپ اپنی جگہ سے ہلے اور نہ ہی سلسلہ کلام منقطع کیا۔ چند لمحوں کے بعد سانپ اُترا اور زمین پرآپ کے سامنے کھڑا ہو کر کچھ کہنے لگا جسے ہم نہ سمجھ سکے اور پھر وہ چلا گیا۔ لوگ واپس آگئے اور آپ کی خیریت پوچھی اور معلوم کرنا چاہا کہ اِس سانپ نے آپ سے کیا کہا۔ آپ نے فرمایا‘ وہ کہتا تھا کہ میں نے اپنی لمبی زندگی میں بہت سے اولیاء اللہ کو دیکھا ہے مگر آپ جیسا ثابت قدم نہیں دیکھا۔
روایت میں آیا ہے کہ حضرت غوث اعظم ؒ بہت زیادہ رویا کرتے تھے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف دِل میں رکھتے تھے اور مستجاب الدعاء تھے اور سخاوت کرنے میں مشہور تھے۔ اچھے اخلا ق کے مالک اور بہترین خوشبو استعمال کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کے جسم پر پہنے ہوئے لباس کا سوال کرتا تو اُتار کر اُسے عطا فرما دیتے تھے۔ آپ حاکموں کے پیسے کی طرف تکتے نہیں تھے۔
آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالرزاقؒ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ آپ حج کے لئے روانہ ہوئے جب بغداد کے قریب ایک موضع میں جس کا نام حلّہ تھا پہنچے تو حکم دیا کہ یہاں کوئی ایسا گھر تلاش کرو جو سب سے زیادہ ٹوٹا پھوٹا اور اُجڑا ہواہو‘ ہم اُس میں قیام کریں گے۔ قصبہ کے امیروں اور رئیسوں نے بڑے اچھے اچھے مکانات آپ کے سامنے قیام کرنے کے لئے پیش کئے لیکن آپ نے اِنکار فرما دیا۔ تلاشِ بسیار کے بعد ایک ایسا مکان مل گیا جس میںایک بڑھیا بوڑھا اور ایک بچی تھی۔ آپ نے بڑے میاں سے اِجازت لے کر رات اُس کے گھر میں گزاری اور وہ تمام نذرانے اور ہدایات جو نقد‘جنس اور حیوانات کی صورت میں آپ کو پیش کئے گئے تھے آپ نے اہل خانہ کو دے دئیے۔ ۱۱ربیع الآخر ۱۶۵ھ بوقت شام آپ کی زبان مبارک پر کلمہ کا ورد جاری تھا۔آخر میں آپ نے اﷲ اﷲ اﷲ کہا پھر آپ کی آواز مبارک مخفی ہوگئی اور جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں