ghouse azam dastagir ghouse azam dastagir dargah ghouse azam images ghouse azam dastagir ki karamat ghouse azam qawali ghous e azam history hazrat ghouse azam dastagir images 11 names of ghouse azam

Breaking

بدھ، 3 نومبر، 2021

شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکا عقیدہ و مسلک Shaikh Abdul Qadar Jilani Ka Aqeeda Wa Maslak

 شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکا عقیدہ و مسلک


ابتدائی حالاتِ زندگی


شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکا پورا نام عبدالقادر بن ابی صالح عبداللہ بن جنکی دوست الجیلی (الجیلانی) ہے جبکہ آپ کی کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین اور شیخ الاسلام ہے۔(دیکھئے: سیر اعلام النبلاء:۲۰؍۴۳۹)، (البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲)، (فوات الوفیات:۲؍۳۷۳)، (شذرات الذہب:۴؍۱۹۸)، علاوہ ازیںامام سمعانی نے آپ کا لقب 'امامِ حنابلہ' ذکر کیا ہے۔ (الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب:۱؍۲۹۱)


صاحب ِشذرات نے آپ کا سلسلہ نسب حضرت حسنؓ بن علیؓ تک پہنچایا ہے۔ آپ ۴۷۱ھ (اور بقولِ بعض ۴۷۰ھ)میں جیلان میں پیدا ہوئے۔ (سیراعلام النبلاء، ایضاً) اور


''جیلان یا گیلان(کیلان) کو ویلم بھی کہا جاتا ہے، یہ ایران کے شمالی مغربی حصے کا ایک صوبہ ہے، اس کے شمال میں روسی سرزمین 'تالیس' واقع ہے، جنوب میں برز کا پہاڑی سلسلہ ہے جو اس کو آذربائیجان اور عراقِ عجم سے علیحدہ کرتا ہے۔ جنوب میں مازندان کا مشرقی حصہ ہے اور شمال میں بحرقزوین کا مغربی حصہ، وہ ایران کے بہت خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔'' (دائرۃ المعارف:۱۱؍۶۲۱بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت:۱؍۱۹۷)


علاقائی نسبت کی وجہ سے آپ کو جیلانی، گیلانی یاکیلانی کہا جاتاہے۔


تعلیم و تربیت


شیخ صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا تذکرہ کتب ِتواریخ میں نہیں ملتا، البتہ یہ بات مختلف مؤرخین نے بیان کی ہے کہ


''آپ اٹھارہ برس کی عمر میںتحصیل علم کے لئے بغداد روانہ ہوئے۔'' (اردو دائرۃ المعارف:۱۲؍۹۲۹)


امام ذہبی کا بھی یہی خیال ہے کہ آپ نوجوانی کی عمر میں بغداد آئے تھے۔ (سیر ایضاً)


علاوہ ازیں اپنے تحصیل علم کا واقعہ خود شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ


''میں نے اپنی والدہ سے کہا: مجھے خدا کے کام میں لگا دیجئے اور اجازت مرحمت کیجئے کہ بغداد جاکر علم میں مشغول ہوجاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔والدہ رونے لگیں، تاہم مجھے سفر کی اجازت دے دی اور مجھ سے عہد لیا کہ تمام احوال میں صدق پرقائم رہوں۔ والدہ مجھے الوداع کہنے کے لئے بیرونِ خانہ تک آئیں اور فرمانے لگیں:


''تمہاری جدائی، خدا کے راستے میں قبول کرتی ہوں۔ اب قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں گی۔''


(نفحات الانس ص:۵۸۷، از نورالدین جامی بحوالہ دائرۃ المعارف ،ایضاً)


شیوخ و تلامذہ


حافظ ذہبیؒ نے آپ کے شیوخ میں سے درج ذیل شیوخ کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے:


''قاضی ابوسعد مخرمی، ابوغالب (محمد بن حسن) باقلانی، احمد بن مظفر بن سوس، ابوقاسم بن بیان، جعفر بن احمد سراج، ابوسعد بن خشیش، ابوطالب یوسفی وغیرہ'' (سِیَر:۲۰؍ ۰ ۴۴)


جبکہ دیگر اہل علم نے ابوزکریا یحییٰ بن علی بن خطیب تبریزی، ابوالوفا علی بن عقیل بغدادی، شیخ حماد الدباس کو بھی آپ کے اساتذہ کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ ( دائرۃ المعارف، اُردو:۱۱؍۶۳۰)


علاوہ ازیں آپ کے درج ذیل معروف تلامذہ کو حافظ ذہبیؒ وغیرہ نے ذکر کیا ہے :


''ابو سعد سمعانی، عمر بن علی قرشی، شیخ موفق الدین ابن قدامہ، عبدالرزاق بن عبدالقادر، موسیٰ بن عبدالقادر (یہ دونوں شیخ کے صاحبزادگان سے ہیں)، علی بن ادریس، احمد بن مطیع ابوہریرہ، محمد بن لیث وسطانی، اکمل بن مسعود ہاشمی، ابوطالب عبداللطیف بن محمد بن قبیطی وغیرہ''( ایضاً)


شیخ کی اولاد


امام ذہبیؒ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے بیٹے عبدالرزاق کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: «ولد لأبي تسعة وأربعون ولدا سبعة وعشرون ذکرا والباقي أناث» (سیر:۲۰؍۴۴۷ نیز دیکھئے:فوات الوفیات:۲؍۳۷۴)


''میرے والد کی کل اولاد ۴۹ تھی جن میں ۲۷ بیٹے اور باقی سب بیٹیاں تھیں۔''


شیخ کا حلقہ درس


شیخ نے تعلیم سے فراغت کے بعد دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا نصب ُالعین بنا لیا جس اخلاص وللہیت کے ساتھ آپ نے یہ سلسلہ شروع کیا، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ نے آپ کے کام میں بے پناہ برکت ڈالی اور آپ کا حلقہ درس آپ کے دور کا سب سے بڑا تعلیمی و تربیتی حلقہ بن گیا۔حتیٰ کہ وقت کے حکمران، امراء و وزرا اور بڑے بڑے اہل علم بھی آپ کے حلقہ ٔ وعظ و نصیحت میں شرکت کو سعادت سمجھتے۔ جبکہ وعظ و نصیحت کا یہ سلسلہ جس میں خلق کثیر شیخ کے ہاتھوں توبہ کرتی، شیخ کی وفات تک جاری رہا۔ (سیر:۲۰؍۴۴۱)


حافظ ابن کثیر شیخ کی ان مصروفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ


''آپ نے بغداد آنے کے بعد ابوسعید مخرمی حنبلی ؒ سے حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ابوسعید مخرمی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد کردیا۔ اس مدرسہ میں شیخ لوگوں کے ساتھ وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کی مجالس منعقدکرتے اور لوگ آپ سے بڑے مستفید ہوتے۔'' (البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲)


شیخ کی وفات:امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ''شیخ عبدالقادر ۹۰ سال زندہ رہے اور ۱۰؍ ربیع الآخر ۵۶۱ھ کو آپ فوت ہوئے۔'' (سیر:۲۰؍۴۵۰)


تالیفات و تصنیفات


شیخ جیلانی ؒ بنیادی طور پر ایک مؤثر واعظ و مبلغ تھے تاہم مؤرّخین نے آپ کی چند تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صاحب ِقلم بھی تھے۔ مگر اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہیںہونی چاہئے کہ مؤرخین نے آپ کی جن تصنیفات کا احاطہ کیا ہے، وہ تمام فی الواقع آپ ہی کی تصنیفات تھیں بلکہ آپ کی ذاتی تصنیفات صرف تین ہیں جبکہ باقی کتابیں آپ کے بعض شاگردوں اور عقیدت مندوں نے تالیف کرکے آپ کی طرف منسوب کررکھی ہیں۔ اب ہم ان تمام کتابوں کا بالاختصار جائزہ لیتے ہیں :


1. غنیۃ الطالبین:اس کتاب کا معروف نام تو یہی ہے مگر اس کا اصل اوربذاتِ خود شیخ کا تجویز کردہ نام یہ ہے: الغنیۃ لطالبي طریق الحق یہ کتاب نہ صرف یہ کہ شیخ کی سب سے معروف کتاب ہے بلکہ شیخ کے افکار و نظریات پرمشتمل ان کی مرکزی تالیف بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں بعض لو گوں نے اسے شیخ کی کتاب تسلیم کرنے سے انکار یا تردّد کا اظہار بھی کیاہے لیکن اس سے مجالِ انکار نہیں کہ یہ شیخ ہی کی تصنیف ہے جیساکہ حاجی خلیفہ اپنی کتاب 'کشف الظّنون' میں رقم طراز ہیں کہ''الغنیة لطالبي طریق الحق للشیخ عبد القادر الکیلاني الحسني المتوفی سنۃ۵۶۱ ھ إحدی وستین وخمس مائة'' (ص:۲؍۱۲۱۱)


''غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جو ۵۶۱ہجری میں فوت ہوئے، انہی کی کتاب ہے۔''


حافظ ابن کثیرؒ نے بھی اپنی تاریخ (البدایہ:۱۲؍۲۵۲) میں اور شیخ ابن تیمیہؒ نے اپنے فتاویٰ (ج۵؍ ص۱۵) میں اسے شیخ کی تصنیف تسلیم کیا ہے۔


2. فتوح الغیب:یہ کتاب شیخ کے ۷۸ مختلف مواعظ مثلاً توکل، خوف، اُمید، رضا، احوالِ نفس وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ بھی شیخ کی کتاب ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ


''شیخ عبدالقادرؒ نے غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب لکھی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں بڑی بڑی اچھی باتیں ہیں، تاہم شیخ نے ان کتابوں میں بہت سی ضعیف اور موضوع روایات بھی درج کردی ہیں۔'' (البدایہ ایضاً اور دیکھئے کشف الظنون :۲؍۲۴۰)


3. الفتح الربانی والفیض الرحماني:یہ کتاب شیخ کے ۶۲ مختلف مواعظ پر مشتمل ہے، یہ بھی شیخ کی مستقل تصنیف ہے۔ (دیکھئے: الأعلام از زرکلی:۴؍ ۴۷)


4. الفیوضات الربانیۃ فی المآثر والأوراد القادریۃ:اس میں مختلف اوراد و وظائف جمع کئے گئے ہیں۔ اگرچہ بعض مؤرخین نے اسے شیخ کی طرف منسوب کیا ہے مثلاً دیکھئے الاعلام(ایضاً) مگر فی الحقیقت یہ آپ کی تصنیف نہیںبلکہ اسے اسمٰعیل بن سید محمد القادری نامی ایک عقیدت مند نے جمع کیا ہے جیسا کہ اس کے مطبوعہ نسخہ سے اس کی تائید ہوتی ہے اور ویسے بھی اس میں ایسے شرکیہ وظائف واَرواد اور بدعات وخرافات پر مبنی اذکارہیں کہ جن کا صدور شیخ سے ممکن ہی نہیں۔ واللہ أعلم


5. الأوراد القادریۃ:یہ کتاب بھی بعض قصائد و وظائف پر مبنی ہے۔ اسے محمد سالم بواب نے تیار کرکے شیخ کی طرف منسوب کردیا ہے حالانکہ اس میں موجود شرکیہ قصائد ہی اسے شیخ کی تصنیف قراردینے سے مانع ہیں۔


اس کے علاوہ بھی مندرجہ ذیل کتابوں کو آپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے :


(۶) بشائر الخیرات (۷) تحفۃ المتقین وسبیل العارفین


(۸) الرسالۃ القادریۃ (۹) حزب الرجا والا نتہاء


(۱۰) الرسالۃ الغوثیۃ (۱۱) الکبریت الأحمرفی الصلاۃ علی النبیؐ


(۱۲) مراتب الوجود (۱۳) یواقیت الحکم


(۱۴) معراج لطیف المعاني


(۱۵) سرالأسرار ومظھر الأنوارفیما یحتاج إلیه الأبرار


(۱۶) جلاء الخاطر في الباطن والظاهر


(۱۷) آداب السلوك والتوصل إلی منازل الملوك


شیخ کی مندرجہ تصنیفات و تالیفات کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :معجم المؤلفین: ۵؍۳۰۷، دائرۃ المعارف اردو:۱۱؍۹۳۲،ہدیۃ العارفین:۱؍۵۹۶، کشف الظنون بترتیب اسماء الکتب وغیرہ


2. شیخ کے عقائد و نظریات اور تعلیمات


شیخ کی ذاتی تصنیفات کے حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کا عقیدہ وہی تھا جو اہل السنۃ کا متفقہ عقیدہ ہے بلکہ آپ خود اپنے عقیدہ کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ''اعتقادنا اعتقاد السلف الصالح والصحابة'' (سیراعلام النبلائ:۲۰؍۴۴۲) ''ہمارا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کا ہے۔''بلکہ شیخ دوسروں کو بھی سلف صالحین کا عقیدہ ومذہب اختیارکرنے کی اس طرح تلقین کرتے ہیں کہ


''علیکم بالاتباع من غیر ابتداع، علیکم بمذھب السلف الصالح امشوا في الجادة المستقیمة'' '' تمہیں چاہیے کہ (کتاب وسنت کی) اتباع اختیار کرو اور بدعات کا ارتکاب نہ کرو اور تمہیں چاہیے کہ سلف صالحین کے مذہب کو اختیار کرو اور یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر تمہیں گامزن رہنا چاہیے۔'' (الفتح الربانی: المجلس العاشر ص۳۵)


نیز فرماتے ہیں کہ ''فعلی المؤمن اتباع السنة والجماعة فالسنة ما سنه رسول اﷲﷺ والجماعة ما اتفق علیه أصحاب رسول اﷲ'' ''مومن کوچاہیے کہ سنت اور سنت پر چلنے والی جماعت کی پیروی کرے۔ سنت وہ ہے جسے رسول اللہؐ نے سنت قرار دیا اور جماعت وہ ہے جس پر اللہ کے رسول کے صحابہ کا اتفاق رہا۔'' (الغنیۃ: ۱؍۱۶۵)


شیخ جیلانی ؒ کے عقائد و نظریات کی مزید معرفت کے لئے ہم ان کی مختلف کتابوں سے ان کے عقائد و نظریات کا سرسری جائزہ پیش کرتے ہیں :


ایمان کے بارے میں


ایمان کی تعریف میں اہل السنۃ اور فرقِ ضالہ میں نمایاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیخ جیلانی ؒ کے ہاں ایمان کی وہی تعریف ملتی ہے جو اہل السنۃ کے ہاں معروف ہے جیسا کہ شیخ فرماتے ہیں:


''ونعتقد أن الإیمان قول باللسان ومعرفة بالجنان وعمل بالأرکان یزید بالطاعة وینقص بالعصیان ویقوي بالعلم ویضعف بالجھل وبالتوفیق یقع''(الغنیۃ:۱؍ ۱۳۵)


''ہمارا عقیدہ ہے کہ ایمان، زبانی اقرار، قلبی تصدیق اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہونے کے مجموعہ کا نام ہے۔ ایمان اطاعت سے بڑھتا، نافرمانی سے کم ہوتا، علم سے مضبوط اور جہالت سے کمزور ہوتا رہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے یہ حاصل ہوتا ہے۔''


غنیۃکے پہلے باب میں بھی شیخ اسی سے ملتی جلتی تعریف بیان کرتے ہیں کہ


''الإیمان قول وعمل لأن القول دعوی والعمل ھو البینة والقول صورة والعمل روحھا'' (ص۱۴، ایضاً)


''ایمان قول و عمل کا نام ہے کیونکہ قول (زبانی) دعویٰ ہے اور عمل اس دعویٰ کی دلیل ہے۔ قول صورت ہے اور عمل اس کی روح ہے۔''


توحید کے بارے میں


توحید ِربوبیت واُلوہیت کے بارے میں شیخ رقم طراز ہیں کہ


''النفس بأجمعھا تابعة لربھا موافقة له إذ ھو خالقھا ومنشؤھا وھي مفتقرة له بالعبودیة'' (فتح الغیب: ص۲۱)


''انسانی نفس (فطرت) مکمل طور پر اپنے ربّ کا مطیع ہے کیونکہ ربّ تعالیٰ ہی اس کے خالق و مالک ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کی بندگی کرنے پر محتاج ہے۔''


نیز فرماتے ہیں کہ


''الذي یجب علی من یرید الدخول في دیننا أو لا أن یتلفظ بالشهادتین لا إله إلا اللہ محمد رسول اللہ ویتبرأ من کل دین غیر دین الإسلام ویعتقد بقلبه وحدانیة اﷲ تعالیٰ'' (الغنیۃ:۱؍۱۳)


''جو شخص اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے، اس پر واجب ہے کہ سب سے پہلے کلمہ شہادت کا اپنی زبان سے اقرار کرے اور دین اسلام کے علاوہ دیگر تمام ادیان سے اعلانِ برأت کرے اور اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت تسلیم کرے۔''


اسماء و صفات کے بارے میں


اسماء و صفات کے بارے میں شیخ اپنا موقف اس طرح بیان کرتے ہیں:


''ولا نخرج عن الکتاب والسنة نقرأ الآیة والخبر ونؤمن بما فیھما ونکل الکیفیة إلی علم اﷲ عزوجل'' (ایضاً:۱؍۱۲۵)


''(اسماء وصفات کے سلسلہ میں) ہم کتاب و سنت سے باہر نہیں جاتے۔ ہم آیت پڑھتے ہیں یا حدیث اور ان دونوں پر ایمان لاتے ہیں جبکہ ان کی کنہ و حقیقت کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔''


اسماء و صفات کے حوالہ سے اہل السنۃ کا یہی موقف ہے جسے شیخ نے اپنی تصنیفات میں جابجا اختیار کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فرقِ ضالہ کے نظریات کی تردید بھی کی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: (ایضاً :۱؍۱۲۵ تا ۱۴۰)


قرآن مجیدکے بارے میں


شیخ فرماتے ہیں کہ


''ونعتقد أن القرآن کلام اللہ وکتابه وخطابه ووحیه الذي نزل به جبریل علی رسول اﷲ...'' (الغنیۃ:۱؍۱۲۷)


''ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآنِ مجید اللہ کاکلام، مقدس کتاب، خطاب اور اس کی وہ وحی ہے جسے جبریل ؑ کے ذریعے محمد رسول اللہﷺپر نازل کیا گیاہے۔''


آنحضرتﷺکے بارے میں


شیخ فرماتے ہیں کہ


''ویعتقد أھل الاسلام قاطبة أن محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب بن هاشم رسو ل اﷲ وسید المرسلین وخاتم النبیین علیهم السلام'' (الغنیة: ایضاً)


''تمام اہل اسلام کا ا س بات پر متفقہ اعتقاد ہے کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ تمام رسولوں کے سردار اور خاتم النّبیین یعنی آخری رسول ہیں۔''


آخرت کے بارے میں


شیخ آخرت کے بارے میں لکھتے ہیں


''ثم إن الإیمان بالبعث من القبور والنشر عنھا واجب کما قال اﷲ...'' ''روزِ آخرت قبروں سے جی اُٹھنے اور حشرونشر پر ایمان لانا بھی واجب ہے۔'' (الغنیۃ:۱؍۱۴۶)


علاوہ ازیں عذابِ قبر، پل صراط، حوضِ کوثر، جنت و جہنم، میزان و شفاعت ِکبریٰ وغیرہ کے حوالہ سے بھی شیخ نے غنیۃ میں وہی عقائد رقم کئے ہیں جو اہل السنۃ کے ہاںمعروف ہیں۔


ردّ ِشرک و بدعت کے حوالہ سے شیخ کی تعلیمات


شیخ جیلانی ؒ توحید کے زبردست حامی اور شرک و بدعت کے قاطع تھے جیسا کہ ان کے مندرجہ اقتباسات سے واضح ہے :


1. ''أن یمد یدیه ویحمد اﷲ ویصلي علی النبي ﷺ ثم یسأل اﷲ حاجته''


''انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ کے حضور دست ِسوال دراز کرے، اللہ کی حمد و ثنا کرے، محمدؐ پر درود و سلام بھیجے پھر اللہ سے اپنی حاجت کا سوال کرے۔'' (الغنیۃ:۱؍۹۲)


2.''ویکرہ أن یقسم بأبیه أو بغیر اﷲ في الجملة فإن حلف حلف باﷲ وإلا لیصمت'' (الغنیۃ: ایضاً) ''آباء و اجداد یا غیر اللہ کی قسم کھانا مکروہ (بمعنی حرام) ہے لہٰذا قسم کھانی ہو تو صرف اللہ کی قسم کھائی جائے ورنہ خاموشی اختیار کی جائے۔''


3. '' وإذا زار قبرا لا یضع یدًا علیه ولایُقَبِّله فإنه عادة الیھود ولا یقعد علیه ولا یتکأ إلیه ... ثم یسأل اللہ حاجته'' (الغنیۃ:۱؍۹۱)


شیخ آدابِ قبور کی مسنون دعا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ


''جب قبر کی زیارت کرنے جاؤ تو قبر پر ہاتھ نہ رکھو اور نہ ہی قبر کو چومو۔ کیونکہ یہ یہودکی علامت ہے اور نہ ہی قبر پر بیٹھو اور نہ اس کے ساتھ ٹیک لگاؤ۔پھر اللہ سے اپنی حاجت طلب کرو''


4. ''وتکرہ الطِّیَرَة ولا بأس بالتفاؤل'' (ایضاً) ''بدشگونی حرام ہے البتہ فال (نیک اور اچھی بات) میں کوئی حرج نہیں۔'' بلکہ بدشگونی کے حوالہ سے شیخ حدیث نبوی سے استدلال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ


''جس شخص کو بدشگونی نے اس کے کام سے روک دیا، اس نے شرک کیا۔'' (الغنیۃ:۱؍۹۶)


° ''اتبعوا ولا تبتدعوا، وافقوا ولا تخالفوا، أطیعوا ولا تعصوا، اخلصوا ولا تشرکوا وحدوا الحق وعن بابه لا تبرحوا، سلوہ ولا تسئلوا غیرہ استعینوا به ولا تستعینوا بغیرہ توکلوا علیه ولا تتوکلوا علی غیرہ''(الفتح الربانی:ص۱۵۱)


''سنت کی پیروی کرو اور بدعات جاری نہ کرو۔ (دین کی) موافقت کرو اور خلاف ورزی نہ کرو۔ فرمانبرداری کرو اور نافرمانی نہ کرو۔ اخلاص پیدا کرو اور شرک نہ کرو۔حق تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرو اور اس کے دروازے سے منہ نہ موڑو، اسی خدا سے سوال کرو ، کسی اور سے سوال نہ کرو۔ اسی سے مدد مانگو،کسی اور سے مدد نہ مانگو۔ اسی پر توکل واعتماد کرو اس کے علاوہ کسی اور پر توکل نہ کرو۔''

6. شیخ رقمطراز ہیں کہ جب تم میں سے کوئی شخص خود یا اس کا بھائی (عزیز) بیمار ہو تو وہ اس طرح دعا کرے: ''اے ہمارے ربّ! جو آسمان میں ہے، تیرا نام مقدس ہے، ارض وسما پرتیرا ہی حکم ہے۔ جس طرح ارض و سما میںتیری ہی رحمت کے دریا بہتے ہیں، اے پاکیزہ لوگوں کے ربّ! ہمارے گناہ معاف فرما دے، اپنی رحمت سے ہم پر مہربانی فرما، اس مصیبت و بیماری میں اپنی طرف سے شفا عطا فرما۔'' (الغنیۃ :۱؍۹۶)

7. ''ساری مخلوق عاجز ہے، نہ کوئی تجھ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، جو کچھ تیرے لئے مفید ہے یا مضر، اس کے متعلق اللہ کے علم میں (تقدیر کا) قلم چل چکا ہے، اس کے خلاف نہیںہوسکتا...'' (فیوضِ یزدانی ترجمہ الفتح الربانی: مجلس ۱۳، ص۸۹)

قبولیت ِعبادات کے بارے میں شیخ کا موقف

شیخ فرماتے ہیں :''إذا عملت ھذہ الأعمالَ...وإصابة السنة''(الفتح الربانی: ص۱۰)

''تم سے تمہارے اعمال اس وقت تک قبول نہیں کئے جاسکتے ہیں جب تک کہ تم اِخلاص پیدا نہ کرلو۔ کوئی قول، عمل کے بغیر مقبول نہیں اور کوئی عمل اخلاص اور سنت کی مطابقت کے بغیر مقبول نہیں۔''

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں